سعودی عرب کے علا وہ کسی اور ملکی میں شریعت مطہر ہ پر عمل کرنے کی بر کا ت کا مشاہد ہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ بر کا ت خاص کر سعودی عرب میں ان جگہو ں پر دیکھی جا سکتی ہیں جہا ں غیر ملکی کم ہیں اور زیا دہ تر سعودی آبا دی مو جو د ہے ۔ وہ علا قہ جہا ں میں نے سروس کی یعنی القصیم، علما ءکرام یعنی مطو ّ عین کا علا قہ کہلاتا تھا اور دین اسلام اصلی شکل میں دیکھا جاتا تھا ۔ القصیم وہ علا قہ ہے جہا ں سب سے آخر میں ٹیلی ویژن کی اجاز ت ملی ۔یہ علا قہ نیک لو گو ں کا مسکن تھا اور ان لو گو ں میں صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ کی صفا ت دیکھی جا تی تھیں ۔ سارے سعودی عرب میں سبزہ زیا دہ یہاں تھا ۔ یہا ں کے تر بو ز ، خر بو زے اور دوسرے پھل بہت سستے اور میٹھے تھے اور تمام عرب ممالک میں بھیجے جا تے تھے ۔ اب تو وہا ں گندم اتنی کا شت ہو تی ہے کہ باہر ملکو ں میں بھیجی جا تی ہے اور ملکی ضرور ت سے زیا دہ ہوتی ہے۔ یہ سب دین پر چلنے کی بر کا ت ہیں ۔
نما ز
ہر مسلمان نما ز ادا کر تا ، جو سستی کر تا اس کو سز ا دی جاتی ۔ ایک پا کستانی ڈاکٹر کو نما ز کے لیے بار بار تنبیہ کی گئی مگر اس نے اپنی اصلا ح نہ کی تو چو ک میں جمعہ کے دن اس کو پکڑ کر درے ما رے گئے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں تبدیلی دکھائی ۔ شہر مختلف محلو ں میں تقسیم تھا اور محلہ کے وسط میں مسجد تھی جس میں ایک رجسٹر تھا اور تما م مر دو ں کی فجر کی نماز میں حاضر ی لگتی تھی ۔ ایک دن میں ایمر جنسی میں ہسپتال چلا گیا اور نماز ہسپتال کی مسجدمیں ادا کی ، اپنے محلہ کی مسجد میں غیر حاضر ہونے کی وجہ سے مجھ سے باز پرس ہوئی۔
زکٰو ة و عطیا ت
اس کامحکمہ مخصو ص تھا ، جو ہر آدمی کی آمدن پر نظر رکھتا اور وقتاً فوقتاً دفتر میں بلا کر تفتیش کر تا ۔ اس محکمہ کی خو بی یہ تھی کہ ایماندار آدمی خاص کر مطوعین ملا زم تھے جن کی تنخواہ کئی کئی گنا تھی ۔ یہ حضرا ت آمدنی کے بارے میں صحیح رپو رٹ کر تے اور کسی افسر یا دکا ندار سے مرعوب نہ ہو تے تھے ۔ جب میںنے حکو مت کی اجا زت سے پریکٹس شروع کی تو میں ہر ما ہ ایک آدمی کو ایک یا دو دفعہ اپنے کلینک کے باہر بیٹھا دیکھتا تھا ۔ میں اس کومشروب یا چائے بھیجتا مگر وہ قبو ل نہ کر تا ۔ وہ میرے مریضوں کی تفصیل لکھتا رہتا ۔ایک دفعہ ایک مریضہ کو ساتھ والی بستی سے لایا گیا جس کو دورے پڑ رہے تھے ۔سارے بستی والے مریضہ کے ساتھ تھے، جن کی تعداد پینتیس کے قریب تھی ۔ تین ماہ بعد دفتر میں میری پیشی ہوئی اور دفتروالو ں نے بتایا کہ آپ کے پاس مریض آتے ہیں۔مثلا ً ایک دن پینتیس مریض آئے تھے ۔میں نے دفتروالو ں کو پتہ بتایا اور یہ بھی عرض کیا کہ ایک مریض تھا با قی چونتیس اس کے متعلقین تھے۔ اس با ت کی تفتیش کی گئی اور میری با ت صحیح ہونے پر میری خلا صی ہو ئی ۔
چوری ، جھگڑا ، لڑائی
میرے ایک سا ل کے قیا م میں ، میں نے اپنے علا قے میں چوری کا ایک بھی وا قعہ نہ دیکھا ۔ اگر کسی کی کوئی چیز گر جا تی تو یا اس کو اٹھا کر تھانہ پہنچا دیتے یا وہیں پڑی رہتی ۔ مجھے اب تک یا د ہے کہ بازارکے ایک چو ک پر دس ریا ل کا نوٹ پڑا تھا ،میں نے اس کو اٹھا کر ساتھ والے دکاندار کو دیا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا کہ وہا ں سے تھا نہ دور تھا اس لیے ا س کو پہنچانے میں وقت لگتا تھا۔ دوکاندار وہا ں جا نے کو تیا ر نہیں تھا۔ مجھے دوکاندار نے کہا کہ اس نو ٹ کو یہاں رہنے دو۔ سات دن کے بعد جب میں دوبارہ اس چو ک سے گزرا تو نوٹ کے ٹکڑے ہو چکے تھے اور پھٹ چکا تھا مگر کسی نے اس کو ہا تھ نہ لگایا ۔ لڑائی جھگڑا تو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا کیو نکہ وہا ں پر پولیس دونو ں فریقوں کو جیل میں ڈال کر دوسرے دن عدالت میں پیش کر تی تھی ۔ گالی دینے پر سزا دی جا تی تھی اور تھپڑ کا بدل تھپڑ تھا۔ امیر غریب کا وہا ں کو ئی فرق نہ تھا، سب کی سزا برابر تھی ۔سعودی عرب میں ایک مشہور واقعہ ہوا تھا ۔ مکہ مدینہ روڈمیرے وقت میں بننا شروع ہو ئی ۔ اس سڑک کے چار حصو ں پر کا م شروع ہوا ۔ سعود ی گورنمنٹ نے ایک انعام بھی رکھا کہ جو کمپنی کام پہلے کرے گی اس کو بہت بڑا انعا م دیا جائے گا ۔ تین کمپنیو ں نے کام مکمل کرلیا ۔ مگر مدینہ منورہ کے حصہ کا کام جو امریکن کمپنی کر رہی تھی مکمل نہ ہوا ۔ امیر مدینہ منورہ نے کئی دفعہ امریکن کمپنی کو وارننگ دی مگر کوئی اثر نہ ہو ا۔ حج کا مو سم قریب آرہا تھا ۔ دن بدن پریشانی بڑھتی جا رہی تھی ۔ امیر مدینہ منورہ کی کئی دفعہ تنبیہ پر بھی امریکن کمپنی نے تیزی نہ دکھائی ۔ امیر مدینہ بہت تنگ آیا اور غصہ میں آکر امریکن کمپنی کے ڈائریکٹر کو تھپڑ ما ر دیا ۔ تھپڑ نے ساری سعودی گورنمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ تمام امریکن کمپنیا ں ہڑتال پر چلی گئیں ۔سڑک کا کام اور زیا دہ لیٹ ہو گیا۔ آخر صلح اس شر ط پر ہوئی کہ امریکن ڈائریکٹر، امیر مدینہ کو تھپڑ ما رے گا ، پہلے اس نے تھپڑ ما را ، پھر امریکن کمپنیو ں نے کام شروع کیا۔
غر بت
صدقہ ، زکو ة اور فطرا نہ کے لیے ہمیں غریب آدمی تلا ش کر نا مشکل تھا ۔ ایک دن پاکستانی ڈاکٹر بازار میں چیزیں خرید کر رہے تھے کہ ہم نے ایک بوڑھے کومیلے کپڑو ں میں دیکھا اور ظاہراً غریب لگ رہا تھا ۔ ہمارے ایک پا کستانی ڈاکٹر نے اس بدو کو سو (100 ) ریا ل خیرا ت کے دئیے ۔ اس کا پیسے دینا ہی تھا کہ بوڑھے سعودی نے شور مچادیا کہ میں تو ”رجل غنی “ ہو ں ۔ رجل غنی اس کو کہتے ہیں جس کے پا س اربو ں ریا ل ہو ۔ وہ کہنے لگا میری بیوی مر چکی ہے ، مجھے کپڑے دھو کر کوئی نہیں دیتا ، میں تو غریب نہیں ہو ں ۔ اس شور پر پو لیس آگئی ۔ ہم نے پو لیس والے کو بات سمجھائی اور پولیس والو ں نے اس کو چپ کرایا اور بڑی مشکل سے خلا صی نصیب ہوئی ۔ مسجدو ں کے باہر عورتیں کالے برقعے پہن کر بیٹھی ہو ئی تھیں ، مگر ان کو خیرا ت نہیں دیتے تھے اور نہ کسی کو خیرات دیتے دیکھا کیو نکہ وہا ں کا مال اور عطیا ت کا محکمہ بیوگان، یتیم اور غریب لو گو ں کو ان کے گھر و ںپر امداد پہنچا دیتا تھااور اس کا م کرنیوالے دین کی برکت سے پوری پوری ڈیو ٹی دیتے تھے ۔
شادی بیا ہ
شادی کی تقریبات بہت سا دہ ، گانے بجانے اور فوٹو گرافی سے پا ک ہوتیں۔ (نہی عن المنکر اور امر بالمعروف )کا محکمہ میں ایماندار لو گ لگے ہوئے تھے ۔ ا س لئے رشوت ، سفارش کو قریب نہ آنے دیتے۔ ایک عجیب چیز جو میں نے دیکھی وہ یہ کہ بھائی بھائی آپس میں اپنے بچوں ، بچیو ں کے رشتے نہ کرتے تھے ۔ نوجوان لڑکیا ں گھر وں میں بیٹھی رہتیں مگر اپنے بھائیوں کے لڑکو ں سے رشتہ نہ کرتے ۔ میں نے وجہ دریا فت کی تو بتایا گیا کہ آپس کے رشتوں سے جھگڑے اور رنجشیں ہو جا تی ہیں ۔ شادی کرنے والے دولھے کو سارا خر چ کر نا پڑتا ، لڑکی والے کو کوئی خر چ نہ کرنے دیتے تھے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 343
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں